انحطاط و زوال سلطنت روما

مشہور برطانوی مورخ و مستشرق ایڈورڈ گبنکی تصنیف ہے جو سلطنت روم کے عروج زوال سے بحث کرتی ہے۔

تاریخِ زوال و سقوطِ سلطنتِ روما ایک مشہور برطانوی مورخ و مستشرق ایڈورڈ گبن کی تصنیف ہے جو سلطنت روم کے عروج و زوال سے بحث کرتی ہے۔ اس کتاب کی علمی حیثیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ مصنف کو جدید تاریخ نگاری کا بانی کہا جاتا ہے۔

انحطاط و زوال سلطنت روما
(انگریزی میں: The History of the Decline and Fall of the Roman Empire ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مصنفایڈورڈ گبن   ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبانانگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوعرومی سلطنت ،  دورہجرت ،  بازنطینی سلطنت ،  محمد بن عبداللہ ،  صلیبی جنگیں ،  سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادبی صنفغیر افسانوی ادب [1]  ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناشرمقتدرہ قومی زبان، پاکستان
تاریخ اشاعت1776  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترجمہ
مترجممظفر حسن ملک

موضوع ترمیم

کتاب میں سلطنت روم کی ابتدا سے زوال تک کی مکمل تجزیاتی تاریخ قلم بند کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ ابھی گبن کا یہ کتاب لکھنے کا ارادہ نہیں تھا، مگر تاریخ سے اپنی دلچسپی کے باعث اس نے شوقیہ ہزاروں صفحات کا مواد جمع کیا۔ مشہور ادیب ای ایم فورسٹر لکھتا ہے: "گبن نے تاریخ کے حوالے سے جو کتابیں پڑھیں، جو نوٹس تیار کیے، ان کی تعداد حیران کن ہے، تاہم اس زمانے میں اس کا مطلق علم نہیں تھا کہ وہ یہ سب کچھ کیوں پڑھ رہا ہے۔" بنیادی طور پر یہ روم کی ابتدا سے زوال تک مکمل داستان ہے اور تاریخ کی اہم ترین کتابوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ گبن کی تحقیق، اس کا شاندار اسلوب، غیر جذباتی اور غیر معتصب تجزیاتی انداز اسے تاریخ انسانی کے عظیم مورخین میں شامل کرتے ہیں۔

تنقید ترمیم

ایڈورڈ گبن (1737–1794).

اس کتاب کے پندرہویں اورسولہویں باب میں مسیحیت پر خاصے سخت حملے کیے گئے ہیں جن پر خوب تنقیدیں کی گئیں۔ نیز چونکہ ایڈورڈ گبن خود عربی سے نا بلد تھا اس لیے اس نے کتاب کے اس مقام (پچاسواں باب) پر جہاں اسلام اور پیغمبر اسلام کا ذکر ہے، اپنے پیشرو مستشرقین کی تصنیفات سے استفادہ کیا ہے۔ اس بنا پر وہ غیر جانبدار نہ رہ سکا اور مستشرقین کا انداز اپنا لیا جو بہت حد تک تعصب اور غیر سنجیدہ پن سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے اس اسلوب پر بیشتر مسلمان سیرت نگاروں نے نقد کیا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم