دور نبوی کے غزوات جن کا تذکرہ مورخین اور سیرت نگار غزوات نبویﷺ کے عنوان سے کرتے ہیں ان کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں دین اسلام کے غلبہ کے بعد سے ہی ہو گیا تھا۔

غزوات کے معنی ترمیم

غزوہ کی جمع غزوات ہے غزوہ کا معنی ہے قصد کرنا اور غزوات یا مغازی کا لفظ رسول اللہ ﷺ کا بنفس نفیس کفار کے مقابلے کے لیے لشکر لے کر نکلنے کے ہیں اور یہ قصد کرنا یا نکلنا شہروں کی طرف ہو یا میدانوں کی طرف عام ہے[1]

غزوات کا مقصد ترمیم

قرآن کریم میں جہاد کا حکم آنے پر اس کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم یہ غزوات دیگر عام جنگوں کی طرح نہیں تھے جن میں صرف قتل وغارت گری مقصود ہوتی ہے، بلکہ ان میں اسلامی احکامات کی انتہائی سختی سے پابندی کی جاتی تھی اور بے جا جانوں کے ضیاع، ضعیفوں، عورتوں، بچوں اور غزوہ میں غیر موجود افراد سے قطعی تعرض نہیں کیاجاتا تھا اور نہ مویشیوں، درختوں اور کھیتیوں کو تباہ برباد کیا جاتا تھا۔ البتہ غزوہ بنی نضیر میں اس قبیلہ کے جو باغات ختم کردیے گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ باغات دشمن کی کمین گاہیں تھیں جہاں یہ سازشیں رچا کرتے تھے، اس لیے انھیں تباہ کرنا پڑا۔

تاریخی پس منظر ترمیم

پہلی مرتبہ جہاد کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا۔ اس سے قبل مسلمانوں کو طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں تھی بلکہ صبر کی تلقین اور اس پر جنت کی بشارت دی جاتی تھی۔ جہاد کا حکم بھی بتدریج نازل ہوا۔ آغاز میں صرف اپنے دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت دی گئی:

جن سے جنگ کی جائے، انھیں جنگ کی اجازت دی گئی، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔

— 

پھر بتدریج حکم نازل ہوا کہ اب اسلام کی شوکت اور غلبہ کے لیے جہاد کریں تاکہ دنیا سے فتنہ ختم ہو اور اللہ کی وحدانیت کو فروغ ملے:

اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ ناپید ہو جائے اور دین کامل اللہ کے لیے ہو جائے۔

— 

غزوات کی تعداد تقریباً 28 ہے۔ اس سے قبل کچھ سرایا بھی ہوئے تھے۔[2]

غزوہ اور سریہ کا لغوی مفہوم ترمیم

غزوہ اور سریہ یہ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں جو درج ذیل مفہوم کے حامل ہیں:

  • غزوہ: دشمن سے جنگ کے لیے جانا۔
  • سَرِیَّہ: فوج کی ٹکڑی جس میں پانچ سے تین چار سو تک افراد ہوں۔

مصنفین سیرت کی یہ اصطلاح میں وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ حضور ﷺ بھی تشریف لے گئے اس کو غزوہ کہتے ہیں اور وہ لشکروں کی ٹولیاں جن میں حضور ﷺ شامل نہیں ہوئے ان کو سرِیّہ کہتے ہیں۔[3]

شماریات ترمیم

  • محمدﷺ کے زیر قیادت 28 غزوات ہوئے۔
  • جن میں سے 9 غزوات میں قتال کی نوبت پیش آئی جبکہ باقی غزوات میں بغیر قتال کے مقصد حاصل ہو گیا۔
  • 7 غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پیشگی اطلاع مل گئی تھی کہ دشمن حملہ کی سازش کر رہے ہیں۔
  • غزوات کا سلسلہ 8 سال تک جاری رہا (2ہجری تا 9ہجری)۔
  • جن میں سنہ 2ہجری میں سب سے زیادہ غزوات پیش آئے (8 غزوات)۔

نقشہ غزوات ترمیم

غزوات کا مکمل نقشہ حسب ذیل ہے:

شمارنامتاریخمقامشمارنامتاریخمقام
1غزوہ ابواء2 ہجریودان15غزوہ بدرالصغری4 ہجریبدر
2غزوہ بواط2 ہجریبواط16غزوہ دومۃ الجندل5 ہجریدومۃ الجندل
3غزوہ ذی العشیرہ2 ہجریالعشیرۃ17غزوہ بنی المصطلق (المریسیع)5 ہجریالمریسیع
4غزوہ بدر اولی (غزوہ سفوان)2 ہجریوادی سفوان18غزوہ خندق5 ہجریمدینہ منورہ
5غزوۂ بدر الکبری17 رمضان ۱۳ مارچ ۶۲۴ءبدر19غزوہ بنی قریظہ5 ہجریاطراف مدینہ منورہ
6غزوہ بنی سلیم2 ہجریقرقرۃ الکدر20غزوہ بنی لحیان6 ہجریغران
7غزوہ بنی قینقاع2 ہجریمدینہ منورہ21غزوہ ذی قرد6 ہجریذو قرد
8غزوہ سویق2 ہجریقرقرۃ الکدر22غزوہ حدیبیہ6 ہجریحدیبیہ
9غزوہ ذی امر3 ہجریذو امر23غزوہ خیبر7 ہجریخیبر
10غزوہ بحران3 ہجریبحران24غزوہ عمرۃ القضا7 ہجریمکہ مکرمہ
11غزوہ احد3 ہجریجبل احد25غزوہ موتہ8 ہجریموتہ
12غزوہ حمراء الاسد3 ہجریحمراء الاسد26فتح مکہ8 ہجریمکہ مکرمہ
13غزوہ بنی نضیر4 ہجریاطراف مدینہ منورہ27غزوہ حنین8 ہجریوادی حنین
14غزوہ ذات الرقاع4 ہجریذات الرقاع28غزوہ طائف8 ہجریطائف
29غزوہ تبوک9 ہجریتبوک

زمانی جدول ترمیم

غزوات نبوی کا زمانی جدول درج ذیل ہے:

شمار2 ہجری3 ہجری4 ہجری5 ہجری6 ہجری7 ہجری8 ہجری9 ہجری
1ودانذی امربنو نضیردومۃ الجندلبنو لحیانخیبرموتہتبوک
2بواطبحرانذات الرقاعبنو المصطلقذی قردعمرۃ القضافتح مکہ
3العشیرۃاحدبدر ثانیہخندقحدیبیہحنین
4بدر اولیحمراء الاسدبنو قریظہطائف
5بدر کبری
6بنو سلیم
7بنو قینقاع
8سویق

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. فتح الباری کتاب المغازی صفحہ 3 مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور
  2. لیکن بخاری نے بروایت زید بن ارقم غزوات کی تعداد 19 نقل کی ہے (صحیح بخاری، باب مرض النبی)۔
  3. مدارج النبوۃ ج 2ص76