خون کا صلہ یا قیمت۔ دیت۔ قدیم معاشروں میں خون کا بدلہ خون ممکن نہ ہوتا تو قاتل سے مقتول کے ورثا کو تاوان کی شکل میں کچھ مال نقد جنس دلا دیا جاتا۔ البتہ بنی اسرائیل میں خون بہا کا دستور نہ تھا۔ اسلام نے اسے جائز قرار دیا۔ حضرت عباس نے قرآن حکیم کی آیت ’’یا ایھا الذین آمنو کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ الخ ‘‘(سورۃ بقرہ آیت 188) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں بھی خون بہا قبول کر لیا جائے۔ اتباع بالمعروف سے مراد یہ ہے کہ دستور کے مطابق طلب کرے اور نہایت اچھے طریقے سے ادا کرے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الدریات)

استعمال

ترمیم

قطع و قتل کی چار صورتوں میں دیت واجب ہوتی ہے۔

  • (1) قتل خطا
  • (2) شبہ عمد
  • (3) قتل بالسبب
  • (4) قائم مقام خطا۔

ان سب صورتوں میں دیت عصبات پر واجب ہوتی ہے۔[1]دیت صرف تین قسم کے مالوں سے ادا کی جائے گی۔

  • (1)اونٹ ایک سو
  • (2) دینار ایک ہزار
  • (3)دراہم دس ہزار۔

قاتل کو اختیار ہے کہ ان تینوں میں سے جو چاہے ادا کرے۔ اونٹ سب ایک عمر کے واجب نہیں ہوں گے بلکہ مختلف العمر لازم آئیں گے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ خطاً قتل کی صورت میں پانچ قسم کے اونٹ دیے جائیں گے۔ بیس بنت مخاض یعنی اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو اور بیس ابن مخاض یعنی اونٹ کے وہ نر بچے جو دوسرے سال میں داخل ہو چکے ہوں اور بیس بنت لبون یعنی اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو اور بیس حقے یعنی اونٹ کے وہ بچے جو عمر کے چوتھے سال میں داخل ہو چکے ہوں اور بیس جذعہ یعنی وہ اونٹنی جو پانچویں سال میں داخل ہو چکی ہے اور شبہ عمد میں، پچیس بنت مخاض اور پچیس بنت لبون اور پچیس حقے اور پچیس جذعے صرف یہ چار قسمیں دی جائیں گی۔[2]

غیر مسلم اور خواتین

ترمیم

اسلامی قانون میں مسلم، ذمی، مستامن سب کی دیت ایک برابر ہے، مگر مسلمان خاتون اور غیر مسلم کی دیت، مسلمان مرد کی دیت کے نصف ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الفتاوی الھندیۃ، کتاب الجنایات، الباب الثامن فی الدّیات، ج6، ص24
  2. الفتاوی الھندیۃ، کتاب الجنایات، الباب الثامن فی الدّیات، ج6،ص24
  3. فتاوی شامی، ص505، جلد5، فتاوی عالمگیری، ص24، جلد6