ابن عساکر – ابو القاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ بن عساکر الدمشقی (پیدائش: 13 ستمبر 1105ء — وفات: 24 جنوری 1176ء) بارہویں صدی کے عظیم مسلم مؤرخ، محدث تھے۔ علامہ ابن عساکر کی وجہ شہرت دمشق کی ضخیم تاریخ تاریخ دمشق ہے جو 80 جلدوں میں تصنیف کی گئی ہے۔ان کا شمار شام کے مستند شافعی فقہا و محدثین میں ہوتا ہے۔

امام   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ابن عساکر
(عربی میں: علي بن الحسن بن هبة الله بن عساكر الدمشقي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش13 ستمبر 1105ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات25 جنوری 1176ء (71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفنباب صغیر   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمیمدرسہ نظامیہ (بغداد)   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذخواجہ یوسف ہمدانی ،  ابونجیب سهروردی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاصابو سعد سمعانی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمحدث ،  فقیہ ،  مورخ ،  الٰہیات دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملتاریخ ،  علم حدیث ،  اشعری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاںتاریخ دمشق ،  تبیین کذب مفتری   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش

ترمیم

ابن عساکر کی پیدائش یکم محرم الحرام 499ھ مطابق 13 ستمبر 1105ء کو دمشق میں ہوئی۔

تاریخ دمشق

ترمیم

ابن عساکر نے اپنے آپ کو علم میں مشغول کیا اور آپ نے اس کو اپنا مقصد بنایا ۔ جس سے کوئی چیز اس کی توجہ ہٹانے کا ذریعہ نہیں بنی اور نہ ہی آپ نے اسے اپنی طرف سے اس میں کوتاہی کا موقع دیا تو خدا نے اسے بہت ساری تحریروں سے نوازا، جو کہ اب تک گونج رہی ہے، اور سائنس نے اسلام کی تاریخ میں سب سے آگے کا مقام حاصل کیا۔ اپنی تعلیم کے دوران، ابن عساکر نے بہت سے کام کیے کتب تالیف کیں ، لیکن ان میں سے ایک اس کا دل تھا، اور آپ کا سابقہ جوش اس کی طرف تھا جب سے اپ نے علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا، آپ شہرہ آفاق عظیم کتاب "تاریخ دمشق" ہے۔ جو شہروں کی تاریخ میں لکھنے کا نمونہ بن گیا، طریقہ کار اور تنظیم کے اعتبار سے آپ نے بہت سے مصنفین کی پیروی کی۔

تصانیف

ترمیم

ابن عساکر کی مطبوع کتب درج ذیل ہیں:[1][2]

  1. تاريخ دمشق
  2. تبيين كذب المفتري فيما نسب إلى الإمام أبي الحسن الأشعري
  3. كشف المغطى في فضل الموطا
  4. أربعون حديثًا لأربعين شيخًا من أربعين بلدة
  5. المعجم المشتمل على ذكر أسماء شيوخ الأئمة النَّبَل، في شيوخ أصحاب الكتب الستة
  6. الأربعون حديثًا في الحث على الجهاد
  7. تعزية المسلم عن أخيه
  8. الأربعون حديثًا من المساواة مستخرجة عن ثقات الرواة
  9. مدح التواضع وذم الكبر
  10. معجم الشيوخ
  11. التوبة وسعة رحمة الله
  12. ذم ذي الوجهين واللسانين
  13. ذم من لا يعمل بعلمه
  14. ذم الملاهي
  15. فضل أم المؤمنين عائشة
  16. الأربعون الأبدال العوالي
  17. الأربعون الطوال
  18. ترتيب أسماء الصحابة الذين أخرج أحاديثهم أحمد بن حنبل في المسند
  19. مجلس في نفي التشبيه
  20. حديث أهل حردان
  21. فضل شهر رمضان
  22. فضل يوم عرفة
  23. ذم قرناء السوء
  24. فضيلة ذكر الله
  25. تبيين الامتنان في الأمر بالاختتان
  26. أخبار لحفظ القرآن
  27. فضل رجب
  28. الحادي والخمسون من أمالي ابن عساكر
  29. الإشراف على معرفة الأطراف - خ، في الحديث، ثلاث مجلدات
  30. تاريخ المزة
  31. معجم الصحابة
  32. معجم النسوان
  33. تهذيب الملتمس من عوالي مالك بن أنس
  34. معجم أسماء القرى والأمصار

وفات

ترمیم

ابن عساکر اپنے آخری ایام میں یہ اشعار پڑھا کرتے تھے : ’’ بڑھاپا آگیا، موت کی مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ اے نفس! تُو ہلاک ہوجائے، تُو نے مجھے ہمیشہ دھوکے میں رکھا۔ کاش ! مجھے معلوم ہوتا کہ میں کن لوگوں میں ہوں گا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے کیا پسند کیا ہے؟‘‘۔ ابن عساکر کی وفات بروز ہفتہ 11 رجب 571ھ مطابق 24 جنوری 1176ء کو دمشق میں ہوئی۔ شیخ قطب الدین نیشاپوری نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے بطورِ خاص نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔آپ کی تدفین دمشق کے تاریخی قبرستان باب صغیر میں کی گئی۔[3]

کتابیات

ترمیم
  • خواجہ طاہر محمود کوریجہ: عظیم شخصیات کے آخری لمحات، مطبوعہ الفیصل ناشران ، لاہور، جون 2001ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. "فهرست الكندي"۔ 26 سبتمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09/ 02/ 1442 هـ 
  2. "المكتبة الشاملة"۔ 26 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09/ 02/ 1442 هـ 
  3. خواجہ طاہر محمود کوریجہ: عظیم شخصیات کے آخری لمحات، صفحہ161۔